دیوار:
ندی کنارے ایک اونچی دیوار بنی ہوئی تھی اور اُس دیوار کے اوپر ایک پیاسا آدمی بیٹھا ہُوا تھا۔ پیاس کی شدت سے اُس کی جان لبوں پر آئی ہوئی تھی۔ وہ بداوسان دیوار پر بیٹھا پانی کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کیونکہ اُس کے اور پانی کے بیچ دیوار کی بُلندی حائل اور مانع تھی۔
بَر لبِ جُو بو دیوارِ بُلند ..
بَر سرِ دیوار تشنہ درد مند ..
پیاس سے بےقرار ہو کر اُسے اور کچھ نہ سوجھا تو اُس دیوار سے ایک اینٹ اُکھاڑ کر ندی میں پھینکی۔ پانی میں اینٹ گرنے سے پانی کی آواز پیاسے تک پہنچی تو اِس آواز سے اُسے بڑی فرحت محسوس ہوئی۔ وہ آواز اُسے ایسی سُریلی لگی کہ وہ اُس پر ہزار جان سے عاشق ہو گیا۔ پانی کی آواز نے اُس کے جان و جگر میں شراب کی سی مستی پیدا کر دی۔ اُس نے دوسری اینٹ اُکھاڑی اور پانی میں پھینک دی۔ اِس مرتبہ آواز پہلے سے بھی زیادہ دلفریب اور جاں نواز معلوم ہوئی۔ اُسے اِس قدر لطف آیا کہ اُس نے دیوانہ وار دیوار سے اینٹیں اُکھاڑ اُکھاڑ کر ندی میں پھینکنا شروع کر دیں۔
پانی نے زبانِ حال سے کہا "ارے شریف آدمی مجھے اینٹیں مارنے سے تجھے کون سے نفلوں کا ثواب مل رہا ہے۔؟ اِس فضول مشقت سے باز آ جا۔ آخر اِس میں تیرا کیا فائدہ ہے۔؟" تشنہ لب شخص نے یوں جواب دیا "اے ندی کے شیریں و شفاف پانی اِس میں میرے دو فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ جب اینٹ پھینکنے کے بعد آواز آتی ہے تو اِس سے میرے تنِ مُردہ میں جان سی پڑ جاتی ہے۔ یہ آواز میرے لئے دنیا کے بہترین ساز کی آواز سے بھی زیادہ دلفریب اور سُریلی ہے کہ پیاسوں کے لئے پانی کی آواز مثلِ سازِ خوش آواز ہے۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ میں جان گیا ہوں کہ میں اِس دیوار کی جتنی اینٹیں اُکھاڑ کر ندی میں پھینکتا جاؤں گا اُتنا ہی پانی کے قریب ہوتا جاؤں گا۔ اِس دیوار کے گرانے سے جوں جوں فاصلہ کم ہوتا جا رہا ہے محبوب سے وصل کا لمحہ قریب آتا جا رہا ہے۔"
یہ دیوار تیرے نفس کی دیوار ہے, جس نے تیرے اور تیرے رب کے بیچ یہ دوری حائل کر رکھی ہے۔ اِسے اینٹ اینٹ کر کے اُکھاڑ اور پھینک دے تاکہ تُو اپنے رب تک پہنچ سکے۔
No comments:
Post a Comment